Friday 4 December 2015

ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں


ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں

مگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیں


بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم

وہ گھر سنسان جنگل ہو گۓ ہیں


یہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ہستی

کہ دل کے حوصلے شل ہو گۓ ہیں


کہاں تک لائے  ناتواں دل

کہ صدمے اب مسلسل ہو گۓ ہیں

انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ

یہاں جو حادثے کل ہو گۓ ہیں


جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر

وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گۓ ہیں

ناصر کاظمی, 

No comments:

Post a Comment