Friday 4 December 2015

عشق میں جیت ہوئی یا مات


عشق میں جیت ہوئی یا مات

آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات


یوں آیا وہ جانِ بہار

جیسے جگ میں پھیلے بات


رنگ کھُلے صحرا کی دھوپ

زلف گھنے جنگل کی رات


کچھ نہ کہا اور کچھ نہ سُنا

دل میں رہ گئی دل کی بات


یار کی نگری کوسوں دور

کیسے کٹے گی بھاری رات


بستی والوں سے چھپ کر

رو لیتے ہیں پچھلی رات


سنّاٹوں میں سنتے ہیں

سُنی سُنائی کوئی بات


پھر جاڑے کی رت آئی

چھوٹا دن اور لمبی رات 


ناصر کاظمی, 

No comments:

Post a Comment