Wednesday 9 December 2015

شاعر داغ دہلوی


ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے

یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے

میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے

دل لے کے میرا دیتے ہو داغِؔ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے

شاعر داغ دہلوی
_______________
تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا
تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا 
تجھ پر آتا ہے مجھے پیار یہ کیا 
جانتا ہوں کہ میری جان ہے تو 
اور میں جان سے بیزار یہ کیا 
پاؤں‌ پر اُنکے گِرا میں‌ تو کہا 
دیکھ ہُشیار خبردار یہ کیا 
تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں 
سب انہیں کہتے ہیں بیمار یہ کیا 
کیوں مرے قتل سے انکار یہ کیوں 
اسقدر ہے تمہیں دشوار یہ کیا 
سر اُڑاتے ہیں وہ تلواروں سے 
کوئی کہتا نہیں سرکار یہ کیا 
ہاتھ آتی ہے متاعِ الفت 
ہاتھ ملتے ہیں خریدار یہ کیا 
خوبیاں کل تو بیاں ہوتی تھیں 
آج ہے شکوۂ اغیار یہ کیا 
وحشتِ دل کے سوا اُلفت میں 
اور ہیں سینکڑوں آزار یہ کیا 
ضعف رخصت نہیں دیتا افسوس 
سامنے ہے درِ دلدار یہ کیا 
باتیں سنیے تو پھڑک جائیے گا 
گرم ہیں‌ داغ کے اشعار یہ کیا


شاعر داغ دہلوی
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو 
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو 
دل میں سو شکوۂ غم پوچھنے والا ایسا 
کیا کہوں حشر کے دن یہ تو بتا دو مجھ کو 
مجھ کو ملتا ہی نہیں‌ مہر و محبت کا نشان 
تم نے دیکھا ہو کسی میں تو بتا دو مجھ کو 
ہمدموں اُن سے میں‌کہہ جاؤں گا حالت دل کی 
دو گھڑی کے لیئے دیوانہ بنا دو مجھ کو 
بیمروت دل بیتاب سے ہو جاتا ہے 
شیوۂ خاص تم اپنا ہی سکھا دو مجھ کو 
تم بھی راضی ہو تمہاری بھی خوشی ہے کہ نہیں 
جیتے جی داغ یہ کہتا ہے مِٹا دو مجھ کو


شاعر داغ دہلوی
___________
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا 
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا 
دل لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں 
اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا 
دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ، کچھ نہ پوچھ 
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا 
افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں 
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا 
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر 
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا 
بزمِ عدو میں صورت پروانہ دل میرا 
گو رشک سے جلا تیرے قربان تو گیا 
ہوش و ہواس و تاب و تواں داغ جا چکے 
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا


شاعر داغ دہلوی
________

لے چلا جان مري روٹھ کے جانا تيرا
لے چلا جان مري روٹھ کے جانا تيرا 
ايسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تيرا 
تو جو اے زلف پريشان رہا کرتي ہے 
کس کے اجڑے ہوئے دل ميں ہے ٹھکانا تيرا 
اپني آنکھوں ميں کوند گئي بجلي سي 
ہم نہ سمجھے کہ يہ آنا ہے کہ جانا تيرا


شاعر داغ دہلوی
_______________

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں

باعثِ ترکِ ملاقات بتاتے بھی نہیں

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھُپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں

جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو

جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں


شاعر داغ دہلوی
______________

عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا
عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا 
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں 
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا

یہ مزہ تھا دل لگی کا، کہ برابرآگ لگتی 
نہ تمھیں قرار ہوتا، نہ ہمیں قرار ہوتا

ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے 
مگر اپنی زندگی کا، ہمیں اعتبار ہوتا


شاعر داغ دہلوی
________________

تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا 
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا 
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں 
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا 
وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے 
تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا 
رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا 
مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا 
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت 
تمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا 
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق 
کہو، وہ تذکرہء نا تمام کس کا تھا 
گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوں 
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا 
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلا 
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

شاعر داغ دہلوی 

No comments:

Post a Comment